حضرت شیخ عبدُللحق مُحدث دہلوی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے ایک مکتوب میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ : امام جلالُ الدین سُیُوطی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ ’’جمع الجوامع‘‘میں مُحدث ابوالشیخ کی تاریخ ا بنِ عساکر اور کتاب الثواب سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن حَجاج بن یوسف ثقفی( اپنے زمانے کے ظالم گورنر) نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختلف اقسام کے 400 سے زائد گھوڑے دکھا کر کہا کہ اے انَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا آپ نے اپنے آقا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم ) کے پاس بھی اتنے گھوڑے اور اتنی شان و شوکت کبھی دیکھی تھی ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا : اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم کے پاس اس سے بھی بہترین چیزیں دیکھی ہیں اور میں نے حضورِاکرم، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم سے سنا ہے کہ گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ گھوڑا جو جہاد کے لئے رکھا جائے ، پھر اس گھوڑے کو رکھنے کا ثواب بھی بیان فرمایا ۔ (یہ بات عام طور پر حدیث کی کتابوں میں بھی موجود ہے) دوسرا وہ گھوڑا ہے جو اپنی سواری کے لئے رکھا جائے اور تیسرا وہ گھوڑا ہوتا ہے جو نُمود و نمائش کے لئے رکھا جاتا ہے اس گھوڑے کے رکھنے سے آدمی جہنّم میں جائے گا ۔ اے حَجّاج! تیرے گھوڑے بھی ایسے ہی ہیں یعنی تیسری قسم کے ہیں ۔
حَجَّاج یہ سن کر آگ بگولا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے انَس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ! اگر مجھے اس بات کا لحاظ نہ ہوتا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم کی خدمت کی ہے اور امیرالمؤمنین (عبدالملک بن مروان)نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رعایت کرنے کی ہدایت کی ہے تو میں تمہارے ساتھ بَہُت بُرا پیش آتا۔ حضرتِ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے فرمایا : اے حَجّاج! اللہ کی قسم ! تو میرے ساتھ کوئی بدعُنوانی نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے رسولُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم سے چند کلمات سنے ہیں ۔
جن کی بَرَکت سے میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی بدولت میںکسی بھی شیطان کے شر اور کسی بھی ظالم کی سختی سے ڈرتا ہی نہیں ، حَجّاج حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس کلام کی ہیبت سے دم بخود رہ گیا اور اس نے اپنا سر جھکا لیا ، تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھا کر پھر بولا کہ اے ابو حمزہ!(یہ حضرتِ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کُنیت ہے)یہ کلمات مجھے بھی بتا دیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں ہرگز تجھے یہ کلمات نہیں بتاؤں گا اس لئے کہ تُو اس کا اہل ہی نہیں ہے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وقت وصال آگیا تو ان کے خادِم حضرت اَبَان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے سرہانے آکر رونے لگے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا : کیا چاہتے ہو ؟ حضرتِ اَبَان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : وہ کلمات ہمیں تعلیم فرمایئے جن کے بتانے کی حَجّاج نے بھی آپ سے درخواست کی تھی اور آپ نے انکار کر دیا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : لو سیکھ لو اور ان کلمات کو صبح اور شام کو پڑھنا۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں ۔
دعائے حضرتِ اَنَس رضی اللہ عنہ
بِسمِ اللہ عَلٰی نَفسِی وَدِینِیْ بِسمِ اللہ عَلٰی اَھْلیْ وَمَالیْ وَولدِیْ بِسمِ اللہ عَلٰی مَااَعطانیَ اللہ اللہ رَبیْ لَا اُشرِك بِه شَیئا اللہ اَکْبرُ اللہ اَکبَرُ اللہ اَکبَرُ وَاَعَزوَاَجَلُّ وَاَعْظمُ مِما اَخافُ وَاَحْذرُ عَز جَارُكَ وَجَل ثَنَآؤكَ وَلَا اِلٰه غَیرُكَ ط اَللھمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِك مِنْ شَر نَفْسیْ وَمِنْ شَرکُل شَیْطَان مرِیْدٍ وَمِن شَر کُل جَبَّارٍ عَنیْد فَاِنْ تَولوْا فَقلْ حَسبِیَ اللہ لَآ اِلهَ اِلا هُوَ عَلَیْه تَوَکلْتُ وَ هُوَ رَب الْعَرْشِ الْعَظیمِ اِن وَلِی ےَ اللہ الَّذیْ نَزَّل الْکِتبَ وَھوَ یتَولی الصلِحِیْن
اِس دُعا کو 3 مرتبہ صبح اور 3 مرتبہ رات کو پڑھنا بزرگوں کا معمول رہا ہے۔ (جنتی زیور ص584 ۔ اخبار الاخیار ص291)
صبح وشام کی تعریف اس طرح ہے کہ آدھی رات کے بعد سے لے کر سورج کی پہلی کِرن چمکنے تک صُبح کہلاتی ہے اور ابتِدائے وقتِ ظہر سے لے کر غُروبِ آفتاب تک کا وقت شام کہلاتا ہے۔