پندرہ شعبان یعنی شبِ برات سے پہلے سفید کپڑے پر سورۃ الکوثر پڑھ لو

admin

15 shaban shab e barat se pehle wazifa

عوام میں نصف شعبان کی رات کا اہتمام کرنے اور خاص طور سے اسی رات میں عبادات انجام دینے کے کئی اسباب ہیں، جس میں سب سے پہلی اور اہم وجہ ہے: بعض علمائے کرام کا اس رات کا اہتمام کرنا اور ان کا اپنی کتابوں میں اس رات کو خصوصی فضیلت والا بتانا ۔ ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ کی طرف منسوب

ایسی بہت ساری احادیث کا وجود جن سے اس رات کی فضیلت، اس میں اعمال کی پیشی، عمر کی تحدید، رزق کی تقسیم، دعاء کی قبولیت اور خود رسول اللہ کااس رات عبادات کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے لہٰذا اس عظیم ثواب کے حصول اور سنت نبوی ؐ کی پیروی میں لوگ اس رات کااہتمام اور اس رات کی تعظیم میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے ہیں۔مزید براں فرمان باری تعالیٰ: فیہا یفرق کل أمر حکیم ۔ اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے کی بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ علامہ زمخشری کہتے ہیں: اس رات کے 4 نام ہیں : اللیلۃ المبارکۃ، لیلۃ البراء ۃ، لیلۃ الصک ولیلۃ الرحمۃ، اس رات کی5خصوصیات بیان کی جاتی ہیں: ہرفیصلہ شدہ معاملہ کی تقسیم ، اس رات عبادت کی فضیلت، رحمت کا نزول، نبی کو اسی رات شفاعت سے نوازا گیا، ظاہر ی طور پر اس رات زمز م کا پانی بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ وہ مبارک رات جس میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ کی بانٹ ہوتی ہے ،اس سے کون سی رات مرادہے؟اس سلسلے میں علماء کے2 اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ اس سے شب قدر مراد ہے۔ یہی جمہور علماء کا کہنا ہے، عبداللہ بن عمر ؓ، مجاہد، ضحاک، قتادہ، ابوزید اور حسن بصری رحمہم اللہ اور بہت سارے اسلاف سے یہی منقول ہے زیادہ تر مفسرین کا بھی ماننا ہے کہ مذکورہ رات سے مراد شب قدر ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ:بے شک ہم نے اسے (قرآن) ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے، ہم نے بے شک (اس کے ذریعہ انسانوں کو) ڈرانا چاہا، اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے۔ اس آیت کی تفسیر میں علماء فرماتے ہیں کہ برکت والی رات سے مراد شب قدر ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے رات کو مبہم رکھا ہے لیکن دوسری جگہ واضح کردیا ہے کہ جس برکت والی

رات میں قرآن کریم اتارا گیا ہے، وہ شب قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ اور یہ نزول رمضان المباک کے مہینہ میں ہواجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا۔ اور یہاں جس برکت والی رات کا جس میں ذکر ہوا ہے، اس برکت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بیان میں صاف کردیا کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مبارکہ(برکت والی ) رات کا نام اس لئے دیا ہے کہ اللہ اس رات لوگوں کے درجات میں اضافہ فرماتا ہے، ان کی لغزشوں کو معاف کرتا ہے، قسمت کی تقسیم کرتا ہے، رحمت پھیلاتا ہے اور خیر عطا کرتا ہے ۔ ابن العربی کہتے ہیں: اکثر علماء کے نزدیک :فیہا یفرق کل امر حکیم یعنی اسی رات میں ہر طے شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے، سے مراد شب قدر ہے جبکہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے لیکن یہ بے بنیاد بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی اور فیصلہ کن کتاب قرآن مجید میں فرمایا:وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر یہ بتادیا کہ نزولِ قرآن رمضان میں ہوا اور پھر رات کے وقت کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا:برکت والی رات میں ۔ لہٰذا جس نے یہ گمان کیا کہ یہ دوسری کوئی رات ہے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا ۔ ابن الجوزی کہتے ہیں: جو یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے اس کی دلیل کچھ ضعیف آثار ہیں جو قابل اعتبار نہیں۔بہر حال اس رات کے برکت والا ہونے میں تو کسی کو اعتراض نہیں ہے تو اس رات میں انفرادی اعمال کی بہت ہی زیادہ برکت ہے اس رات اگر ستر بار سورہ کوثر کو پڑھ کر کسی سفید کپڑے پر دم کر دی جائے اور پھر اس کپڑے میں اپنی دولت کو رکھا جائے تو اس میں بہت ہی زیادہ برکت ہو گی اور آپ کا رزق بہت ہی وسیع ہوجائے گا اور غیب سے بارش کی طرح برسے گا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Leave a Comment