ایک شخص جسے دین سے تو کسی قسم کی کوئی غرض نہیں تھی لیکن وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتا تھا کہ اسے کہیں سے کسی طرح اسم اعظم مل جائے ۔ اس شخص کے سر پر اس بات کا بھوت سوار ہو گیا تھا کہ اسے کہیں سے اسم اعظم مل جائے اور وہ فوراً سے اس اسم اعظم کی وجہ سے دنیا بھر کی دولت حاصل کر کے خوش حال ہو جائے ۔اس شخص کو جب بھی کوئی بتاتا کہ یہ اسم اعظم ہے ۔ تم اس اسم کا ورد کرو تو وہ شخص دن رات اسی وظیفے کو کرتا رہتا اور ساتھ اس بات کو بھی نوٹ کرتا رہتا کہ اس وظیفے کی وجہ سے اس کی زندگی میں کیا فرق پڑا رہا ہے ۔
لیکن وظیفہ مکمل ہو جانے کے بعد بھی اس شخص کی حالت ویسی کی ویسی ہی رہا کرتی تھی ۔ اس شخص کے پاس نہ تو کہیں سے کوئی دولت آتی اور نہ ہی وہ امیر ہوتا اور نہ ہی وہ شخص خوش حالی کا منہ دیکھ پاتا ۔ اپنے اسی جنون میں وہ پاگل پن کی حد تک چلا گیا تھا کہ ایک دن وہ آدمی اپنی زندگی سے اس قدر تنگ آگیا کہ اس شخص نے خودکشی کرنے کی ٹھان لی ۔اب وہ شخص خودکشی کرنے کے مختلف طریقے سوچنے لگا تو اس کے ذہن میں یہ آیا کہ کیوں نہ گھر میں پڑی ہوئی بہت سی دوائیاں کھا لوں تاکہ اس سے اس کی زندگی کا خاتمہ بھی ہو جائے گا اور کسی اور کو علم بھی نہیں ہو گا کہ میں نے خود کشی کی ہے ۔
اب اس شخص نے اپنے گھر میں موجود تمام ادویات اکٹھی کر لیں اور ان دوائیوں کو کھانا شروع کر دیا ۔ وہ یہ ادویات کھا رہا تھا کہ اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بے شک دنیا کو یہ پتا نہیں ہوگا کہ میں نے خود کشی کی ہے لیکن وہ اللہ رب العزت جس نے مجھے سزا دینی ہے وہ تو یہ جانتا ہے کہ میں نے خود کشی کی ہے ۔ اور یقیناً یہ موت حرام ہے ۔ جس کی مجھے کبھی بھی کوئی معافی نہیں مل سکے گی ۔
اب اس شخص نے وہ دوائیاں ادھر ہی چھوڑیں اور جتنی دوائیاں کھا لی تھیں ان پر وہ بے حد پریشان ہوا کہ کہیں زندگی کا خاتمہ نہ ہو جائے ۔ وہ شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی موت گولیاں کھانے کی وجہ سے اس کے بہت قریب آ چکی ہے ۔ تو وہ اللہ کی ذات سے ڈرنے لگا کہ پتہ نہیں اب میری کس طرح سے پکڑ ہوگی ۔ میں نے تو اپنی زندگی بھی سکون سے نہیں گزاری تو کیا اب میں مرنے کے بعد بھی ایسے ہی بے سکون رہوں گا ۔
وہ شخص جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا ، اس نے وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑا ہوگیا ۔ جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہی وہ رونے لگا اور اس شخص نے نماز پڑھنی شروع کر دی اور پھر سجدے میں رونے لگا اور اللہ تعالی سے اپنے کیے گے گناہ کی رو رو کر معافی مانگنے لگا ۔ کہ اے اللہ ایک بار پھر سے موقع دے دے، اب تیرے احکامات کے مطابق زندگی گزاروں گا ، اب تیری مرضی کے مطابق چلوں گا ۔ وہ شخص اپنی انتہائی پریشانی کی حالت میں سجدے میں ہی رو رو کر اپنے رب سے دعائیں کرتا جا رہا تھا کہ اس کا سارا دن وہیں گزر گیا ۔ اس آدمی کو ایک دم خیال آیا کہ اسے تو ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا ۔
وہ اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہا تھا اسی طرح اللہ تعالی نے ان دوائیوں کے اثرات کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے اور اس شخص کی دعا سن لی ہے ۔ اب اس شخص کے ذہن میں اچانک خیال آیا کہ اسم اعظم تو دراصل وہ لفظ ہوتا ہے ، اللہ کا وہ نام ہوتا ہے جس کو ہم دل سے پکارتے ہیں۔ اللہ تعالی کا کوئی نام جس نام کو بھی دل سے پکارا جائے ۔ وہی نام اسم اعظم بن جاتا ہے ۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو ہم دل سے نہیں پکارتے تب تک ہم مایوسی کا ہی شکار رہتے ہیں ۔