سیدنا حضرت ابوہُریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اِنہوں نے عرض کیا کہ : یارسولَ اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم قیامت کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم کی شفاعت سے فیضیاب ہونے والے خوش نصیب لوگ کون سے ہوں گے؟ تو نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ: اے ابو ہُریرہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میرا گمان یہی تھا کہ تم سے پہلے مجھ سے یہ بات کوئی اور نہیں پوچھے گا کیوں کہ میں حدیث سُننے کے معاملہ میں تمہاری حِرص کو (اچھی طرح) جانتا ہوں، قیامت کے دن میری شفاعت حاصل کرنے والا خوش نصیب شخص وہ ہو گا جو صدقِ دل (یعنی سچے دل کے ساتھ )سے
” لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ“کہے گا۔ (بخاری، 1/53، حدیث: 99)
سیدنا حضرت جابر رضی اللہُ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِ پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا جس کا مفہوم یہ ہے کہ سب سے اَفضل ذکر ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ“ہے اور سب سے بہترین دُعا ” اَلحمدُ لِلہ “ ہے۔
(ابن ماجہ، 4/248، حدیث: 3800)
سیدنا حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ ہی سے رِوایت ہے کہ نور کے پیکر، راحت قلب و سینہ تمام نبیوں کے سَردار خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم نے اِرشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ” جس بندے نے اِخلاص کے ساتھ (یعنی خلوص دل کے ساتھ ) ” لَآ اِلٰهَ اِلا اللہُ“ کہا تو آسمانوں کے تمام دروازے اس کے لیے کھول دیئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچ جاتا ہے اگر (وہ شخص)کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔“ (ترمذی، 5/340، حدیث: 3601)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ اسلام کے سب سے بڑے مُبلِّع، رحمتِ عالَم ، خاتم النبیین ، صاحب الجود والکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ : اپنے ایمان کی تَجدید کیا کرو ۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسولَ اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم ہم اپنے ایمان کی تجدید کس طرح کیا کریں ؟ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا:” لَآ اِلٰهَ اِلا اللہُ“کو کثرت کے ساتھ پڑھا کرو۔(مسند امام احمد ، 3/281، حدیث: 8718)