احتجاج کا حق اور احتجاج کا طریقہ جو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے ایک شخص کو بتایا تھا

admin

nabi saw ka farman urdu

اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے انسانوں کی ہر رشتے میں ، ہر شعبے میں اور ہر لحاظ سے راہنمائی فرمائی ہے ۔ اسلام نے جہاں ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ حقوق بیان فرمائے ہیں وہیں سب کے فرائض بھی بیان کئے ہیں ۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے پڑوسیوں کے بھی حقوق بیان کئے ہیں ۔ پڑوسی 2 طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی جو کافر ہوں ۔ دوسرے وہ پڑوسی جو مسلمان ہوں ۔ مسلمان پڑوسیوں کی بھی 2 قسمیں ہیں ۔

ایک وہ پڑوسی جو صرف مسلمان ہوتے ہیں اور دوسرے وہ پڑوسی جو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ رشتہ دار بھی ہوں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم اس طرح ہے کہ : مجھے جبرائیل علیہ السلام نے پڑوسی کے لئے بار بار وصیت کی ہے ۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو بھی وارث بنا دیا جائے گا ۔

یاد رکھیں اسلام کی تعلیمات سے جس مسلمان کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہیں ہوتا ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ آدمی مومن نہیں ہے ۔اسلام کی تعلیمات کے مطابق جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے ۔

اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والے کو جہنمی قرار دیا ہے ۔ ایک شخص نے اللہ کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے کہا کہ ایک عورت نفل بھی پڑھتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کیا کرتی ہے اور وہ عورت بہت زیادہ روزے بھی رکھتی ہے لیکن اس عورت میں ایک خامی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچاتی ہے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے اسے جہنمی قرار دیا ہے۔

اسلام نےایسے شخص کو خوش نصیب کہا ہے جس کے پڑوسی بہت اچھے ہوں ۔نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم برے پڑوسی سے بھی اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے اپنے پڑوسی کی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے اسے اپنا سامان راستے میں نکالنے کو کہا ۔ اس شخص نے ایسے ہی کیا جیسا کہ نبی کریم ،خاتم النبیین، راحتہ العاشقین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا تھا۔

لوگوں نے اس شخص کو راستے میں سامان رکھ کر بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ تم نے گھر سے باہر سامان کیوں رکھا ہوا ہے ؟ تو اس شخص نے لوگوں سے کہا کہ میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے ۔ لوگ یہ سنتے تو اس کے پڑوسی کو لعن طعن کرتے اور واپس چلے جاتے ۔ جب اس بات کا علم اس کے پڑوسی کو ہؤا تو اس کے پڑوسی نے اس سے معافی مانگی اور اس شخص کو آئندہ تنگ نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا اس سے۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی تعلیمات کے مطابق کوئی شخص بھی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹیاں لگانے سے منع نہ کرے ۔اسلام میں پڑوسی کو تحفے تحائف دینے کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ چاہے گھر میں کوئی اچھا کھانا بنا ہو تو اس کھانے میں سے تھوڑا سا پڑوسی کے گھر بھیجنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے ۔ایک پڑوسی کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے مال، جان ، عزت اور آبرو کی حفاظت کرے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق جب بھی اپنی زمین یا مکان وغیرہ فروخت کرنا ہو تو پڑوسی کا یہ حق پہلا ہے کہ اگر وہ خریدنا چاہے تو پہلے اسے ہی گھر یا مکان بیچا جائے ۔پڑوسی بے شک کافر ہی کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے بھی حقوق ادا کرنے کا حکم ہمیں دیا گیا ہے ۔

Leave a Comment