سفید آٹا چونکہ بہت سارے مراحل سے گزرتا ہے اور پھر میدے کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ اصل میں سفید آٹا بنانے کے لیے گندم میں سے بہترین اجزاء کو مختلف اشکال میں الگ کر لیا جاتا ہے جس سے دیگر مختلف اشیاء بنا لی جاتی ہیں ۔ اتنے بہت سارے مراحل سے گزرنے کے بعد آٹا میدے کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ جب گندم میں سے بہترین اجزاء جیسا کہ فائبر وغیرہ الگ کر لیے جاتے ہیں تو پھر یہ میدہ انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔
سفید آٹا روزانہ کی بنیاد پر میکرونی ، پاستہ ، پیزا، برگر، ڈبل روٹی ، روٹی اور پراٹھے کی صورت میں بہت سی اشیاء میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے انسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔ اس سے جگر کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ سفید آٹا کھانے کی وجہ سے انسان۔موٹاپے اور بد ہضمی کا شکار بھی ہو جاتا ہے ۔ سفید آٹے کے سبب نظام انہضام کی کارکردگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے ۔ سفید آٹا سے جب فائبر نکل جاتا ہے تو فائبر کے نکل جانے کے بعد یہ آٹا تیزابی خصوصیات کا حامل ہو جاتا ہے ۔ فائبر کے نکل جانے کے بعد خوراک دیر سے ہضم ہوتی ہے ۔ جس کی وجہ سے آنتوں اورجگر کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے طبی ماہرین کا ہے کہ سفید آٹے کی جگہ ہمیں چکی کا پسا ہوا آٹا استعمال کرنا چاہیے کیوں کہ چکی کا آٹا استعمال کرنے سے جسم کو فائبر کی وافر مقدار مل جاتی ہے ۔ اور فائبر کی زیادہ مقدار ملنے کے نتیجے میں نظام انہضام بھی بہترین ہوتا ہے اور انسان کی مجموعی صحت پر بھی اس کے بہترین اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سفید آٹے کو استعمال کرنے سے ہڈیوں میں کیلشیم تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے جوڑوں کا درد پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سفید آٹے میں فائبر نکل جانے کی وجہ سے ذہنی دباؤ ،ڈپریشن ، اور سر درد جیسی بیماریاں بھی عام ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ کیوں کہ سفید آٹے سے صحت کے لیے مفید اجزاء نکال لئے جاتےہیں۔